article-u
کالم: عائشہ فداء مروت

پنجاب پولیس نے پتنگ بازی کے خلاف صوبے بھر میں کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ فیصل آباد اور سرگودھا میں پتنگ کی ڈور سے دو ہلاکتیں ہونے کے باعث کیا گیا۔ فیصل آباد میں پتنگ کی ڈور سے 22 سالہ نوجوان کی المناک موت ہوئی جس کے مناظر راہگیروں نے کیمرے میں ریکارڈ کر لئے تھے۔یہ مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے تھے، ویڈیو میں صاف نظر آ رہا ہے کہ آصف افطاری کے لیے سامان خرید کر گھر لوٹ رہا تھا کہ اچانک اپنی موٹر سائیکل سے نیچے گر گیا، اس کی گردن میں ڈور پیوست تھی۔ عینی شاہدین فوراً مدد کے لیے دوڑے لیکن خون اتنا زیادہ بہہ چکا تھا کہ نوجوان کو بچایا نہیں جا سکا۔ اِسی طرح کا ایک اور واقعہ سرگودھا میں بھی ہوا، پتنگ کی ڈور پھرنے سے ایک اور ہلاکت ہو گئی۔ اس کے علاوہ اتوار کو لاہور میں بھی دو بچے پتنگ بازی کی نذر ہو گئے۔ اِن میں سے ایک بچہ دھاتی تار ڈور کے ساتھ باندھ کر پتنگ پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا، اسے کرنٹ لگااور وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، دوسرا بچہ پتنگ پکڑنے کے چکر میں چھت سے گر کر جاں بحق ہو گیا۔ پتنگ بازی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافے پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اجلاس بلایا اور پتنگ بازی کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایت کی۔ اْنہوں نے کیمیکل سٹرنگ بنانے، فروخت کرنے اور خریدنے کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم بھی دیا۔ وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو پتنگ بازی کے قوانین کو خاطر میں نہ لانے والوں کے خلاف کارروائی اور جرائم کی صورتحال سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ فیصل آباد کے نوجوان کی ہلاکت کے المناک واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شہری کافی پریشان اور غمگین ہیں اور وہ پتنگ بازی کے خلاف قوانین پر سختی سے عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان واقعات کی مذمت میں پتنگ بازی کے شوقین افراد نے ڈور اور پتنگیں جلاتے ہوئے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا شروع کر دی ہیں، ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ 2 ماہ کے دوران پنجاب میں ڈور سے ہلاک ہو نیوالے افراد کی تعداد تین ہے جبکہ دو درجن سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ پنجاب میں پتنگ بازی پر پہلی بار 2005ء میں پابندی لگائی گئی تھی، اس کے بعد دو بار بسنت منانے کی اجازت دی گئی لیکن پھر جانی نقصان ہونے کی وجہ سے 2009ء میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی، اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو چھ ماہ قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔

ویسے تو پتنگ بازی ہرگز خطرناک کھیل نہیں تھا، بسنت کو دراصل پالا اْڑنت یعنی بہار کی آمد کہا جاتا تھا اور پتنگ بازی اِس بسنت کے تہوار کا لازم حصہ ہوا کرتی تھی کیونکہ اِن دنوں میں ہوائیں کھل کر چلتی ہیں۔ دن میں چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی پتنگیں آسمان پر سج جاتی تھیں۔ گلی محلے میں ہر گھر کی چھت پر بسنت کے موقع پر باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا، کھانے بنائے جاتے تھے، دعوتیں ہوتی تھیں، خاندان اکٹھے ہوتے تھے، میلے سجتے تھے، بسنت کی رات کی اپنی ہی رونق ہوتی تھی۔ دنیا بھر سے لوگ بسنت کے موقع پر لاہور میں جمع ہوتے تھے، سیاحت کو فروغ ملتا تھا، لوگوں کے کاروبار چمک اٹھتے تھے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ شہریوں نے خود ہی اس کو جان لیوا کھیل بنا دیا، وہ کھیل جو کبھی تفریح کا ذریعہ ہوتا تھا موت کا سبب بننے لگا۔چھوٹی پتنگوں کی جگہ بڑے گڈیوں نے لے لی، ان کو اڑانے کے لئے عام ڈور کام نہیں آتی تھی، ڈور بنانے والوں نے زیادہ منافع کمانے کی خاطر ڈور پر شیشے کا استعمال شروع کر دیا، مظبوط ڈور کی دوڑ شروع ہو گئی، عام کچے دھاگے پر مانجا لگا کر قاتل ڈوریں بننے لگیں جو کھال کاٹ دیتی تھیں لیکن کٹتی نہیں تھیں۔دھاتی تار عام ہو گئی جس سے کرنٹ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہو گیا اس کے علاوہ بسنت پر ہوائی فائرنگ ہونے لگی، پتنگیں پکڑنے کے شوق میں بچے سڑکوں پر اندھا دھند بھاگنے لگے، چھتوں سے گرنے لگے اور پھر بالآخر حکومت نے اس تہوارپر پابندی لگا دی اور اس طرح اربوں روپے کی معیشت بن جانے والا تہوار یہاں کے لوگوں کی ہی بے رخی، بے احتیاطی اور بے حسی کا شکار ہو گیا۔ المیہ یہ ہے کہ مکمل پابندی کے باوجود لوگ چھپ چھپ کر اپنے اس شوق کی تسکین کرتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے بھی پتنگوں اور ڈور کی خرید و فروخت جاری ہے اسی لئے تو اس کے باعث ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں پتنگ بازی کی جاتی ہے، چین میں سمندر کے کنارے مخصوص جگہوں پر لوگ پتنگیں اڑاتے ہیں اور سب قاعدے قانون کی پابندی کرتے ہیں۔ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، ذمہ داران کا تعین کر کے انہیں سزا دینے کی بجائے ہر چیز پر پابندی لگا دی جاتی ہے تب ہی لوگ چور راستے ڈھونڈتے ہیں اور مزید نقصان ہوتا ہے۔پتنگ بازی ایک صنعت کی شکل اختیار کر چکی تھی، سیاحوں کو پاکستان کی طرف کھینچتی تھی، ہماری ثقافت کی بہترین عکاس تھی، بہتر تو یہ ہوتا کہ پتنگ بازی کے لئے جگہیں مخصوص کر کے اس تہوار کو جاری رکھا جاتا۔ دھاتی تار اور شیشے والی ڈور کا استعمال ممنوع قرار دیا جاتا اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی۔پہلے ہی وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں تفریح کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، پارکوں کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور بہت سے مقامات ایسے ہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اب بھی مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے،مخصوص مقامات پر مخصوص ڈور کے ساتھ پتنگ بازی کی اجازت دی جا سکتی ہے جس سے انسانی جان کو نقصان پہنچنے کا ذرا سا بھی اندیشہ نہ ہو۔ یہ بات تو طے ہے کہ انسانی جان پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، ذمہ داروں کا تعین کرنا بھی ازحد ضروری ہے اب کریک ڈاون شروع تو ہوا ہے لیکن کہیں یہ بس وقتی ابال ہی ثابت نہ ہو۔



Share: