article-u-2
فداء اللہ مروت

وفاقی دارالحکومت کے تمام دیہی اور کچے کے علاقہ تمام تر قانونی اداروں کی جھرمٹ میں ہیں لیکن قانون کی عملداری زیرو زیرو زیرو پوائنٹ ایک پر سنٹ بھی نہیں ہے۔

گلی محلوں میں کھلے عام منشیات فروشی، غیر قانونی پٹرول اور گیس فیلنگ دکانوں کی بھرمار جو کسی بھی وقت کسی بھی انتہائی خطرناک انسانوں کی جان اور مال کا ضیاع کا سبب بن سکتی ہیں۔

لاغر گوشت اور بیمار جانور خود ساختہ طورپر ذبح کرکے ان کا گوشت ایسے فروخت ہوتا جیسے قانون اور انسان کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔

خودساختہ مہنگائی ، تندوروں پر کم وزن کی زیادہ قیمت پر روٹی کی فروخت، ہر ایک ضروریات زندگی کے اشیاء کی اپنی مرضی کی قیمت مقرر ہے۔

پتنگ بازوں اور ڈور کا کاروبار کرنے والوں کی محفوظ آماجگاہیں، ہوائی فائرنگ جیسے واقعات روز کا معمول ہیں۔

غیر قانونی بیکریاں، مضہرصحت بریڈ، بن، مٹھائیاں، وغیرہ ایسے فروخت کرتے ہیں جیسے قانون نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو جواب دہ نہیں ہیں۔

انتہائی غیر معیاری آئس کریم، چیپس، پکوڑے سموسے، جلیبیاں مرغی گوشت کی آلائشیو کی تکہ کے نام پر فروخت کھلے عام ہورہا ہے۔

غیرقانونی میڈیکل سٹور بغیر کیس فارماسیسٹ، بغیر کسی مستند ڈگری یا تعلیم کے دوائی کے نام پر موت بیچ رہے ہیں۔

ناجائز تجاوزات، غیرقانونی قبضہ و تعمیرات کی بھرمار ہے۔

ان سب کا ذمہ دار کون؟

میں سمجھتا ہوں کہ ان سب کا ذمہ دار میں ہوں کیونکہ میں نے صحافت اور اس قسم کے حالات واقعات اور خبریں رپورٹ کرنا چھوڑ دی ہے۔ میں لاپرواہ ہوگیا، میں بے حس ہوگیا، اب مجھے یہ رپورٹیں، یہ سٹوریاں، یہ انوسٹی گیشن ، یہ سٹی نیوز، یہ مارکیٹ کی خبریں، یہ سروے رپورٹ، یہ کھلی کچہریاں ایک فضول کام لگنے لگا ہے، اب میں صحافی بن گیا ہوں، اب میں نے ترقی کرلی ہے، اب ماڈرن سوشل میڈیا کے چینل کا مالک بن گیا ہوں، اب اس قسم کی بنیادی خبریں بنیادی صحافت سے میری عزت گھٹتی ہے، اب مجھے پارلیمنٹ ہاؤس کا کارڈ مل گیا ہے، اب مجھے ایکریڈیٹیشن کارڈ مل چکا ہے، اب میں پریس کلب کا ممبر بن گیا ہوں، اب یہ حقیقی صحافت میرے لئے توہین ہے۔

ہاں لیکن اگر میں یہ سب دوبارہ سے شروع بھی کردوں تو کیا ہوگا، پہلے تو کوئی اخبار ہے ہی نہیں اگر ہے تو اس کو بنانے والا کوئی ہے ہی نہیں، اگر کوئی بنا رہا ہے تو وہ ایک وقت میں ایک ساتھ اتنے اخبارات بنارہا ہے کہ اس کے پاس میری خبر ٹائپ کرنے ایڈٹ کرنے اس کی ضمنیاں سرخیاں بنانے کا ٹائم ہی نہیں ہے، اور میں کسی طرح خود ہی اپنی خبر بنالوں ٹائپ کرلوں، ضمنی سرخیاں نکال کر مکمل تیار شدہ خبر اخبار میں دے دوں۔

تو کیا پتہ اس دن اخبار شائع ہوگا بھی کہ نہیں؟ کسی پروڈکشن ہاؤس میں بننے والے اخبار میں میری خبر کی جگہ ہوگی کہ نہیں؟ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے اخبار کا مالک اسی مندرجہ بالا کاموں میں سے کسی ایک مالک ہو، کسی مالک کا دوست ہو، کسی مالک سے منتھلی لے رہا ہوں، یا اس خبر کا اخبار کو کوئی مالی فائدہ ہی نہ ہو اور کچھ چانسز تو یہ بھی ہیں کہ اس اخبار کا مالک ہی ان کا سرپرست ہو اور ایسی خبروں سے بچنے کےلئے اس نے اخبار کا سہارا لیا ہو تو کیونکر میری خبر شائع ہوگی۔

ہاں ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر میں کسی طریقہ سے اپنی خبر شائع بھی کردوں سوشل میڈیا وغیرہ پر۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کوئی اس پر ایکشن بھی لے گا؟

کیونکہ سرکاری ملازم تو خود بیچارہ پریشانیوں میں ڈوبا ہوا ہے وہ اپنے بچوں کی لاکھوں کی تعلیم فیسیں ادا کریگا وہ اپنی بیوی کے فرمائشیں پوری کریگا وہ اپنی پوسٹنگ کا بھتہ پورا کریگا، وہ اعلیٰ افسران کی ڈیمانڈز پوری کریگا، وہ اپنی نوکری بچائے گا، یا میری خبر پر ایکشن لے گا؟

یہاں تو دکاندار بھی اسی گلی محلے کا ہوتا ہے انہی کو لوٹ رہا ہوتا ہے، اور وہی لوگ ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

لیکن یہی حقیقت ہے کہ میں ذمہ دار ہوں ان سب کا

یہ سب میرے بہانے ہیں خود کو جھوٹ بول کر خود کو مطمئن کرنے کے، جس طرح عشق میں انجام نہیں دیکھا جاتا اس طرح صحافت کرنے کےلئے انجام سے مبرا ہونا پڑتا ہے۔

صحافی بننے کے بعد آپ گلہ شکوہ کا اختیار بھی کھو دیتے ہیں صحافی بننے کے بعد ہر غلط کام کے ذمہ دار میں ہوں۔



Share: